Tarana e Ishq , Kalaam Abyat Hazrat Sakhi Sultan Bahoo RA ♦ Ain ul Faqr(Ostad Hamid Ali Khan)
  • 7 years ago
ترانۂ عشق:
ہر منتہی آغازِ من
کس نیست محرم رازِ من
مگسی کجا شہبازِ من
در عشق اُو پروانہ ام
از جانِ خود بیگانہ ام

ہر انتہا میری ابتدا ہے
میرے راز کا محرم کوئی نہیں
کہاں مکھی اور کہاں میرا شہباز؟
میں اُس کے عشق کا پروانہ ہوں
اپنی جان سے بیگانہ ہوں

کونین واصل یک قدم
اللہ بس ما را چہ غم
ایں نفس را گردن زنم
در عشق اُو پروانہ ام
از جانِ خود بیگانہ ام

کونین(دونوں جہان) میری طے کا ایک قدم ہیں
اللہ میرے لئے کافی ہے
مجھے اور کچھ نہیں چاہیے
کہ میں اپنے نفس کی گردن اڑا چکا ہوں
میں اُس کے عشق کا پروانہ ہوں
اپنی جان سے بیگانہ ہوں

زاہد کجا بس دور تر
از وصل عاشق بیخبر
ایں مدعی اندر دہر
در وحدتش پروانہ ام
از جانِ خود بیگانہ ام

زاہد وصالِ حق سے بہت دُور ہے
وہ عاشق کے مراتبِ وصل سے بے خبر ہے
کہ اُس کی تگ و دو اسی جہان تک محدود ہے
اس کے برعکس میں وحدتِ حق کا پروانہ ہوں
اپنی جان سے بیگانہ ہوں

از عرش بالا جاہِ من
شد وحدت اندر راہِ من
ای بشنوی دل خواہِ من
در وحدتش ہمخانہ ام
از جانِ خود بیگانہ ام

بالائے عرش میری شان و شوکت کے ڈنکے بجتے ہیں
کہ میری گزر بسر وحدتِ حق کے اندر ہے
سُن میرے یار! میری بات غور سے سُن
کہ وحدتِ حق میرا گھر ہے
اپنی جان سے بیگانہ ہوں

ایں علم را از دل بشو
با شوق اسم اللہ بگو
در وحدتش شو آبجو
من جان با جانان ام
در عشق اُو پروانہ ام
از جانِ خود بیگانہ ام

اس علم کو اپنے دل سے دھو ڈال
اور پورے شوق سے اسم اللہُ ذات کو وردِ جان بنا لے
تا کہ تُو وحدتِ حق کی ندی بن جائے
میں اپنی جان محبوب کے حوالے کر چکا ہوں
کہ میں اس کے عشق کا پروانہ ہوں
اپنی جان سے بیگانہ ہوں

حضرت سلطان باھُوؒ (فارسی کلام)
تصنیف: عین الفقر
Recommended