جائے وقوع پر والد اور گاؤں والوں کو پہنچتے دیکھ کر دونوں نوجوان موقع سے فرار ہونے میں کامیاب

  • 2 years ago
وہاڑی (میڈیا رپورٹر)2درندہ صفت اوباش نوجوانوں کی 11 اور 12 سالہ کم عمر کو زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش، والد اور گاؤں والے کے بچیوں کو تلاش کرنےکے دوران جائے وقوع پر پہنچتے دیکھ کر دونوں نوجوان موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

غربت کی وجہ سے چار دیواری نہ کرسکنے والے غریب رکشہ ڈرائیور کی 11 سالہ بیٹی ثمن بی بی اور 13 سالہ بیٹی ثانیہ بی بی ،نامی دو کم سن بچیوں کو اُنہیں کے گاؤں کے 2 رہائشی درندہ صفت اوباش نوجوان سجاد اور مدثر نے صحن میں سوتی حالت میں منہ پر ہاتھ کر رات 11 بجے کے قریب اغوا کر لیا اور اپنی حویلی میں لیجا کر 13 سالہ ثانیہ کے ساتھ زنا بالجبر کرنا شروع کر دیا۔ پاک ایشیا ویب ٹی وی کے میڈیا رپورٹر شمعون نذیر نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ثانیہ بی بی کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد ثمن بی بی کے ساتھ زنا کرنے کی کوشش جاری تھی کہ اُسی دوران بچیوں کے والد ، والدہ اور دیگر اہل دیہہ تلاش کرتے کرتے جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تو ملزمان بچیوں کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔

15کی کال پر تھانہ شیخ فاضل کی پولیس موقع پر آئی اور مقدمہ نمبر 153/22 بجرم376(i)تعزیرات پاکستان کے تحت درج کر لیامگر قانون حرکت میں نہ آسکاکیونکہ ملزمان نے تفتشی افسر قاسم علی، سب انسپکٹر سے ساز باز کر لی۔جس نے نشاندہی کے باوجود ملزمان کو گرفتار کرنے کی بجائے طمع نفسانی کی خاطر ملزمان کوبروقت گرفتار کرنے اور والد کے زخموں پر مرہم لگانے کی بجائے الٹا مظلوم بچیوں کے والد کو ڈرایا دھمکایااور ملزمان کو 4 اپریل 2022 تک مہلت دے دی کہ آپ اپنی عبوری ضمانتیں کروا لیں اور تین روز تک ملزمان گاؤں میں دندناتے پھرتے رہے۔

ضلع وہاڑی کی تاریخ میں دو کم سن بچیوں کے ساتھ پیش آنے والا یہ واقعہ سنگینی کے لحاظ سے اپنی نوعیت کا پہلا منفرد واقعہ ہے۔ یاد رہے کہ ابتدائی میڈیکل رپورٹ سے زیادتی کے شواہد بھی سامنے آچکے ہیں۔ اس افسوس ناک واقعہ پر علاقہ مکینوں نے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کے ملزمان کسی بھی رعائیت کے مستحق نہیں ہیں، ایسے لوگوں کو سرعام پھانسی پر لٹکانا حالات کا بہترین تقاضہ ہے۔مگر افسوس کی بات ہے کہ ایک ایسے تفتیشی افسر کو تفتیش دی گئی ہےجو قابلیت کے لحاظ سے اچھی شہرت کا حامل نہ ہے اورجس کی قوت سماعت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سنگین واقعہ کی درست سمت پر تفتیش کے لیے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس جنوبی پنجاب کو ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کی اشد ضرورت ہے ۔

اس اندوہناک وقوعہ پر پورا گاؤں غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ بچیوں کے والدین کا کہنا تھا کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے حکام بالا نے مظلوموں کی فریاد سننا بند کر دی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان کو اس واقعہ کا فوری طور پر از خود نوٹس لینا چاہیے۔

Recommended